Breaking News

Saturday, November 30, 2019

محسن فاروق کی موت کی کہانی اسکےدوستوں کی زبانی

فون کی گھنٹی بجتی ہے محسن جھٹ سے فون اٹھاتا ہے.. قاسم: جلدی آؤ یار کہاں ہو. محسن: میں تو گھر ہوں. بس سونے کی تیاری کر رہا ہوں پر نین... thumbnail 1 summary
فون کی گھنٹی بجتی ہے محسن جھٹ سے فون اٹھاتا ہے.. قاسم: جلدی آؤ یار کہاں ہو.

محسن: میں تو گھر ہوں. بس سونے کی تیاری کر رہا ہوں پر نیند نہیں آرہی .
قاسم: اچھا چلو کہیں باہر چلتے ہیں. عمران اور کامران بھی ساتھ ہیں ہمارے ساتھ چلو چِل کریں گے اور آج کھانا ہماری طرف سے ہوگا.
محسن: اچھا جگر میں بس پانچ سات منٹ میں پہنچتا ہوں. تم لوگ ایسا کرو سٹاپ پر آکر مس بل کردو....
سفر شرور ہوتا ہے عمران, کامران اور قاسم کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی ہیں. محسن سے مخاطب ہو تے ہیں کیا کھانا پسند کرو گے. اور تینوں شیطان صفت, درندے پلان کرتے ہیں کہ کھانا تو تمھاری مرضی سے ہوگا, موت کا طریقہ اور بل ہم طے کریں گے.
محسن: یار لگتا ہے آج تم لوگ مجھ پر اپنا پیار نچھاور کر رہے ہو ویسے یہ آفر کس خوشی میں ہے.
دوست: تمھاری جیت کے جشن اور اور تمھاری اگلی جیت کے انتظار میں یہ سب ہوگا..
محسن: گانے کے lyrics انجوئے کرتے ہوئے ان اشعار کو دہراتا ہے اور یہ ان لمحات سے بھرپور لطف اٹھا رہا ہے کہ کس قدر سچے اور پکے دوست اسکو ملے. چل یار آگیا ہوٹل سفر بہت جلدی گزر گیا. بھوک بھی سخت ستا رہی ہے.. 

دوست: ایسا کھانا کھلائیں گے کہ  اگلے جنم تک یاد رکھے گا. 
کامران: تم لوگ جا کر بیٹھو میں آرڈر کر کے آتا ہوں. کیوں کہ پہلے ہی دیر ہو چکی ہے مزید دیر ہو گئ تو ہو سکتا ہے تمہیں بھوکا جانا پڑے( ہائے کاش کھانا نا ملتا اور محسن بھوکا گھر لوٹ جاتا)

محسن: اگلے میچ پر ضرور آنا. جیت انشاللہ یقینی ہے.
کامران:  تمہیں اتنا یقین ہے کہ ہر والی بال میچ اپنے نام کروا لیتے ہو. انعام جیت جیت کر تمھارا دل نہیں بھرتا.

محسن: یار مجھے کبھی کبھی لگتا ہے خدا نے جیت ہی میرا مقدر بنا دیا. اب ہارنے کا حدشہ ہے نہ کوئی خوف..کبھی کبھی اپنی جیت پر افسوس بھی ہوتا ہے کہ دشمن کو ہربار شکست دینا بھی تو ضروری نہیں.. 
قاسم: قہقہ لگاتے ہوئے..ہاہاہا.. کیا پتہ اس بار دشمن تجھے ہرا دیں.
محسن: اگر تو
میرا سچا یار ہوتا تو منہ سے یہ بات نہ نکالتا.. چل جگرہےتیری کڑوی بات بھی میٹھی لگتی ہے شہزادے..

محسن: یار کامی نہیں آیا لگتا ہے کوئی خاص ڈش بنوانے کے لیے چلا گیا.
کامران: لو جی کھانا آگیا! 
محسن: ویٹر کہاں ہے. توں کیوں لایا یار میں اپنے ہاتھوں سے کھلاوں گا تجھے.. 
محسن: پہلا نوالہ لیتے ہوئے.. واہ کامی یار مزا آگیا لگتا ہے یہ سارا میں اکیلے ہی ہضم کر جاؤں گا..
عمران: قاسم کو اشارہ کرتے ہوئے ہوئے جا محسن کے لیے ایک اور سرپرائز رکھا ہے جا کر دیکھ کمرے میں.
محسن: واہ واہ اتنی مہربانیاں!! کیا بات ہے. لگتا ہے تمام حساب برابر کرو گے.
چل یار پہلے سرپرائز دیکھ لوں. تینوں دوست اسکے ساتھ کمرے میں گئے اتنی دیر میں محسن کو پیٹ میں درد شروع ہوگیا. اور منہ سے قہہ آئی ..اور تینوں نے دروازہ لاک کر کے اسکو دبوچ لیا.. محسن کو تو اپنی ہوش نہ رہی وہ بیتے دنوں کو کیسے یاد کرتا, خنجروں اور چھریوں کے وار کرتے گئے, یہاں تک کہ اسکی ہڈیاں بھی چور چور ہو گیئں جب انکا خوف بڑھنے لگا کہ یہ کہیں بچ نہ جائے تو اسی ہوٹل کی تیسری منزل سے دھکا دے دیا تاکہ لوگ اسکو خودکشی سمجھیں.. رات کافی ہوچکی تھی آدھے سے زیادہ عملہ گھر جا چکا تھا .....
محسن: آہ ہا.... میری غلطی بتا دو میرا قصور بتا دو
پاکستان کے چند بہترین سیاحتی مقامات
یہ واقعہ ایک فرضی مجھے مسحن کی موت کا علم نہیں نہ اس سے پہلے میں اس نام کے آدمی یا کھلاڑی کو جانتا تھا یہ صرف ایک اظہار ہے اس دُکھ کا جو لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا..

No comments

Post a Comment

Facebook

Advertising