بہن بھائی سمیت کئی خاندان سرحد کے دونوں اطراف48سال سے ملنے کے انتظار میں
پاک بھارت جنگ1971ءکو ہوئے48سال بیت چکے ہیں لیکن گلگت بلتستان میں آج بھی کئی خاندان ایسے ہیں جنکا خاندان کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی آپس میں ملاپ نہیں ہوسکا، اس کے بعد لاتعداد ایسے حالات پیدا ہوئے کہ ان خاندانوں کو آپس میں ملنے کی آس لگی کبھی راہداری اور کبھی ویزہ کھلنے کے انتظار میں اس جہاں سے چل بسے۔
جنگ 13 دن تک جاری رہے لیکن اس کے اثرات آج بھی ان خاندانوں پر نمایاں ہیں
دریائے شیوک کے کنارے بیٹھے پاک آرمی سے ریٹائرڈ غلام قادر دریا کنارے بیٹھے اپنے خاندان کے بچھڑے افراد کو یاد کرتے ہیں۔
غلام قادر اس بارے میں بتاتے ہیں وہ محاذ پر تھا تو پتا چلا اس دوران 4 دیہات پر قبضہ کیا جن میں انکا گاؤں تیاکشی بھی شامل تھا وہ بتاتے ہیں کہ انکی بیوی پاکستان آنے کیلئے بے تاب تھی آخر کارایک دن دریائے شیوک میں گر گئی گئی جو اسکو پاکستان لے آیا اور عجب اتفاق کہ اسکی لاش اسکے شوہر کو ہی ملی اور اس نے اسے پاکستان میں دفن کردیا۔
غلام قادر پرانی تصویروں کو دیکھ کر آبدیدہ ہوتے ہیں
حیرت کی بات ہے کہ انکا گاؤں سرحد سے صرف دو میل دور ہے لیکن جنگ اور سیاست کی وجہ سے آج تک یہ فاصلہ نہ طے ہو سکا
غلام قادر ریٹائرڈ فوجی |
غلام قادر پرانی تصویروں کو دیکھ کر آبدیدہ ہوتے ہیں
حیرت کی بات ہے کہ انکا گاؤں سرحد سے صرف دو میل دور ہے لیکن جنگ اور سیاست کی وجہ سے آج تک یہ فاصلہ نہ طے ہو سکا
سرحد کے ایک طرف غلام قادر اور دوسری طرف اسکی بہن حبیبہ اسی انتظار میں ہیں کہ کب انکو آپس میں ملنا نصیب ہوگا
بہن حبیبہ |
جبکہ غلام قادر کی ماں اس کے انتظار میں اس دنیا سے چل بسی
غلام قادر کے بھائی شمشیر قادر کو بھی ملنے کی آس نے زندہ رکھا تھا انکو بھی اپنے بھائی کی کوئی خبر نہ تھی ۔اچانک ایک دن ریڈیو سنتے ہوئے انکو ایک گانا اس پیغام کےساتھ ملا کہ یہ گانا تیاکشی گاؤں کے غلام قادر کی طرف ہے ،یہ سننا تھا انہوں نے ریڈیو کی اواز اونچی کی اور سب رونے لگے۔یہ ریڈیو سکردو کی سروس تھی جس سے ہمیں پتا چلا کہ میرا بھائی زندہ ہے۔
بھائی شمشیر |
اس تڑپ کو ملاپ میں بدلنے کا طریقہ طے ہونے لگا ،انکو بھائی نے خط لکھاکہ وہ حج پر جا رہے ہیں لہذا مجھے بھی حج کیلئے انتظام کرنا پڑا۔میں نے ادھار لیکر حج کا پروگرام بنایا اور ہم دونوں بھائی مکۃ المکرمہ میں ملے۔
پاک بھارت جنگ میں تقریبا 350 خاندان جدا ہوئے اور اب صرف23افراد کو ویزہ مل سکا ہے۔
ان خاندان کا کہنا ہے کہ کشمیر اور پنجاب میں اگر راستہ کھل سکتا ہے تو یہاں کیوں نہیں ،اسکا ذؐہ دار دونوں ممالک کو قرار دیتے ہیں،کافی حد تک تو یہ بات درست ہے۔
بی بی سی کو دیا گیا انٹرویو دیکھئے
انڈیا-پاکستان کی 1971 جنگ کے دوران انڈیا نے بلتستان میں واقع 4 پاکستانی دیہاتوں پر قبضہ کر لیا اور ایک نئی سرحد وجود میں آ گئی۔ بی بی سی کی نامہ نگار فرحت جاوید نے بلتستان جبکہ عامر پیرزادہ نے انڈیا کے علاقے لداخ میں ان بچھڑے خاندانوں سے بات کی۔ ان کی کہانی سنئیے انہی کی زبانی۔ pic.twitter.com/ECMs8BlqeU— BBC News اردو (@BBCUrdu) December 23, 2019
No comments
Post a Comment