سانحہ آرمی پبلک سکول کی سب سے کمسن شہید طالبہ کی کہانی
Army Public School KPK |
مارنا شروع کردیا،سکول میں سٹاف اساتذہ اور بچوں سمیت 1099افراد موجود تھے۔اس دن پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا اور طلبا سمیت 150 افراد کو بے دردی سے شہید کردیا۔
ان ہی بچوں میں خولہ الطاف شامل تھی
خولہ الطاف پشاور سانحے کی کم عمر ترین |
16دسمبر 2014 خولہ الطاف سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کی سب سے کمسن شہید جسے سر میں گولی ماری گئی تھی۔شہادت کے وقت عمر5 سال تھی۔وہ اس کا اسکول میں پہلا دن تھا.اس کی شہادت کا واقعہ اس کے والد الطاف حُسین کی زبانی.
اس روز ہم کالج کی عمارت کی پہلی منزل پر قائم کمپیوٹرلیب میں موجود تھے،جب ہم نے فائرنگ کی آواز سنی اس وقت ہم خولہ کی تصویر لے کر اس کا داخلہ فارم بھر رہے تھے۔وہ صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے راہداری میں گئے اور پھر یہ سوچ کر واپس آگئے کہ یہ آرمی کی مشق ہوگی۔لیکن ان کے فوراً بعد سکول کی استاد میڈم شہناز سیڑھیوں سے بھاگتی ہوئی اوپر آئیں اور بتایا کہ وہ بچوں کو قتل کر رہے ہیں۔وہ خولہ کی مس شہناز کے سپرد کر کے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے باہر چلے گئے ۔ اس دوران ان کے جسم میں دو گولیاں لگیں اور وہ بیہوش ہو گئے۔ اس لمحے کے بعد وہ خولہ کوکبھی نہ دیکھ پائے اور نہ ہی ان کے جنازے میں شریک ہو سکے۔خولہ کو سر میں گولی گولی لگی تھی اور مس شہناز بھی شہید ہوگئی تھیں۔ الطاف حسین نے کہا میں نے اپنے ہاتھوں سے خولہ کو موت کے سپر د کیا۔ میں اس کو کسی محفوظ جگہ لےجا سکتا تھا۔ لیکن اس کے بجائے میں نے قاتلوں کو مصروف رکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ اوپر نہ آسکیں. اس دوران وہ ننھی پری جنت کی راہی ہوئی.
اس روز ہم کالج کی عمارت کی پہلی منزل پر قائم کمپیوٹرلیب میں موجود تھے،جب ہم نے فائرنگ کی آواز سنی اس وقت ہم خولہ کی تصویر لے کر اس کا داخلہ فارم بھر رہے تھے۔وہ صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے راہداری میں گئے اور پھر یہ سوچ کر واپس آگئے کہ یہ آرمی کی مشق ہوگی۔لیکن ان کے فوراً بعد سکول کی استاد میڈم شہناز سیڑھیوں سے بھاگتی ہوئی اوپر آئیں اور بتایا کہ وہ بچوں کو قتل کر رہے ہیں۔وہ خولہ کی مس شہناز کے سپرد کر کے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے باہر چلے گئے ۔ اس دوران ان کے جسم میں دو گولیاں لگیں اور وہ بیہوش ہو گئے۔ اس لمحے کے بعد وہ خولہ کوکبھی نہ دیکھ پائے اور نہ ہی ان کے جنازے میں شریک ہو سکے۔خولہ کو سر میں گولی گولی لگی تھی اور مس شہناز بھی شہید ہوگئی تھیں۔ الطاف حسین نے کہا میں نے اپنے ہاتھوں سے خولہ کو موت کے سپر د کیا۔ میں اس کو کسی محفوظ جگہ لےجا سکتا تھا۔ لیکن اس کے بجائے میں نے قاتلوں کو مصروف رکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ اوپر نہ آسکیں. اس دوران وہ ننھی پری جنت کی راہی ہوئی.
اگر آپ کو میری تحریر پسند آئی ہے تو نیچے لازمی کمینٹ کریں اور فیس بک سے پوسٹ کو شئیر کردیں
No comments
Post a Comment